"" عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
Responsive Advertisement

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا

 عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا

درد کی دوا پائی، درد بے دوا پایا


غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل

خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا


شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا

آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا


فکرِ نالہ میں گویا، حلقہ ہوں زِسر تا پا

عضو عضو جوں زنجیر، یک دلِ صدا پایا


حال دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی

ہم نے بار ہا ڈھونڈھا، تم نے بارہا پایا


شب نظاره پرور تھا خواب میں خرام اس کا

صبح موجۂ گل کو نقشِ بوریا پایا


جس قدر جگر خوں ہو، کوچہ دادنِ گل ہے

زخمِ تیغِ قاتل کو طُرفہ دل کشا پایا


ہے نگیں کی پا داری نامِ صاحبِ خانہ

ہم سے تیرے کوچے نے نقشِ مدّعا پایا


دوست دارِ دشمن ہے! اعتمادِ دل معلوم

آه بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا


نَے اسدؔ جفا سائل، نَے ستم جنوں مائل

تجھ کو جس قدر ڈھونڈھا الفت آزما پایا

Post a Comment

3 Comments

  1. It's very heart warming and good collection

    ReplyDelete
  2. Mirza Asad ullah Khan galib the great
    کی میرے قتلِ کے بعد اس نے جفا سے توبہ
    ہا ئے اس زورِ پشیماں کا پشیماں ہونا

    ReplyDelete