"" ادھوری محبت ناول Episode #1
Responsive Advertisement

ادھوری محبت ناول Episode #1



ادھوری محبت






 وہ ابھی اپنا یونیورسٹی کا کام ختم کر کے لیٹی ہی تھی کہ اسے اپنے ماں باپ کی لڑنے کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ چُپ چاپ اٹھی اور اپنے کمرے سے باہر نکل کر اک نظر اپنے ماں باپ کے کمرے پر ڈال کر مایوسی سے سیڑھیاں چڑنے لگی۔ روز کی طرح سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ یہی سوچ رہی تھی کہ اسے شام کو ہی ریسام کے ساتھ چلے جانا چاہیے تھا جب ریسام نے اسے کہا تھا۔ کیونکہ یہ تو اس کے گھر کا معمول تھا پھر بھی پتہ نہیں کس آس میں ہر روز گھر روک جاتی تھی اور پھر یہی آوازیں سنتی تھی۔اپنی چھت کی چھوٹی سی کو پار کر کے وہ دوسری چھت کی سیڑھیاں اترنے لگی آخری سیڑھی پر روک کر اس نے اس گھر کو دیکھا جو سچ میں جنت تھا اس کے لیے۔ رات کے اندھیرے میں بھی اتنا سکون جو اس کی اعصاب کو بھی سکون بخش رہا تھا ایک گھر وہ تھا جو اس کا اپنا ہوتے ہوئے بھی اس کے لیے اپنا نہیں تھا صرف اور صرف شور اور نفرت تھی۔ اور ایک یہ گھر تھا، جہاں صرف محبت ہوتی اور اس گھر کے ہر کونے کونے سے محبت کی خوشبو آ رہی تھی۔ اس گھر کی ہر چیز اس کی ذات کو باخوبی جانتی اور پہچانتی تھی وہ اپنی سوچوں سے نکل کر سیڑھیاں کے دائیں طرف بنے کمرے کا دروازہ کھول کر آرام سے جا کر بیڈ پر لیٹ گئی اور اس سکون والے گھر میں وہ کچھ ہی  منٹوں میں نیند کی وادی میں اتر گئی وہ بچپن سے آج تک اس شور سے بھاگ رہی تھی۔ اس شور کی وجہ سے وہ کبھی سمجھ نہیں پائی تھی

پانچ سال کی عمر میں پہلی دفعہ وہ اس شور سے ڈر کر چھت پر بھاگ آئی تھی اپنے ماں باپ کی لڑائی تو وہ بچپن سے دیکھتی آ رہی تھی وہ یہ بھی خیال نہ کرتے کی ریماس سامنے ہے پر اس دن پہلی دفعہ اس کے باپ نے اس کی ماں پر ہاتھ اٹھایا تھا ریماس ڈر کر چھت پر آ گئی ایک چھوٹی سی دیوار جو دو گھروں کی چھتوں کو تقسیم کرتی تھی اس دیوار کے ساتھ بیٹھ کر اپنی گڑیا کو بازوں میں دبوچے سسکیوں سے رونے لگی۔
تم بھی یہاں آج ہی آئی ہوں اپنے گھر کو مس کر رہی تھی۔ 

ریماس نے نظر اٹھائی دیوار کی دوسری طرف دیکھا تو دو پونی بنائے ایک لڑکی کھڑی تھی جو لگ بھگ اسی کی عمر کی تھی اور اسی سے بات کر رہی تھی ریماس آنسو صاف کرتے کھڑی ہو کر اس لڑکی کو دیکھنے لگی جس کے ہاتھ میں بھی ایک ڈول تھی جو اس لڑکی کی طرح بہت پیاری تھی۔

میرا نام ریسام ہے میں بھی نیو ہوں یہاں میرے دوست، چاچو، کزن سب دوبئی رہ رہے ہیں میں تو نہیں رو رہی تم بھی نہیں رو۔ 
ریماس کھڑے بس اسکی گڑیا کو دیکھتی رہی جو واقعی بہت ہی نفیس اور پیاری تھی اس کی طرح۔ 
بابا کہتے ہیں یہاں بھی میرے  نیو دوست بنے گئے تم بنو گی میری دوست۔ ریسام نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

ریماس کا دھیان ابھی بھی اس کی گڑیا کی طرف تھا۔ اس نے اس لڑکی کی کی طرف دیکھ کے کہا تم مجھے اپنی گڑیا سے کھیلنے دو گی۔۔۔

ریسام نے ایک دفعہ اس لڑکی کو پھر اپنی گڑیا کی طرف دیکھا ٹھیک ہے تم میری گڑیا لے لو اور مجھے اپنی گڑیا دے دو کہتے ہی گڑیا اس کی طرف بڑھا دی ریماس نے بنائے کچھ سوچے فوراً اس کی گڑیا پکڑ لی اور اپنی گڑیا ریسام کو دے دی۔۔۔۔۔۔۔ ریسام گڑیا پکڑتے ہوئے فرئینڈ اور رائٹ ہاتھ اگے کیا۔۔۔ 

 ریماس نے بھی گڑیا کو لیفٹ ہاتھ میں کرتے ہوئے رائٹ ہاتھ ملایا وہ اس خوبصورت گڑیا کو پا کر بہت خوش تھی۔ ہاتھ ملانے کے بعد وہ اس گڑیا کو دیکھنے لگی اور ریسام اسے۔۔۔

ریسام بیٹا۔۔۔۔ 

اپنے باپ کی آواز سنتے ہی پاپا پاپا کرتے ریسام واپس سیڑھیوں کی طرف بھاگی آئی اس کے پاپا نے اسے اٹھا لیا اور گال پر بوسہ دیا۔ 

ریماس گڑیا اٹھائے اس شخص کو دیکھتی رہی۔۔۔۔۔۔ انہوں نے ریسام کو نیچے اترا تو ریسام پاپا کو کھینچتے ہوئے ریماس کی طرف لے آئی۔ پاپا یہ میری دوست ہے ریماس۔ 

احتشام پاؤں کے بل بیٹھتے ہوئے اس پیاری سی بچی کو دیکھا۔۔۔ مسکراتے ہوئے اس سے پوچھا۔ ہیلو بیٹا کیس ہیں آپ۔۔۔۔۔ 
پر ریماس کھڑے اس شخص کے محبت بھرے لہجے اور مسکراتے چہرے کو دیکھتی رہی

کوئی جواب نہ پا کر انہوں نے ریسام کی طرف دیکھا جو ریماس کو ہی دیکھ رہی تھی خود کو ایسے دیکھتا پاکر احتشام نے مسکراتے ہوئے اس بچی کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا۔۔۔ آپ کی دوست آپ کے ساتھ شام کو کھیلنے آئے گی ابھی اس کی ماما اسکا کھانے پے ویٹ کر رہی ہیں

 ok بیٹا

نیچے چلیں ریسام۔۔۔۔۔ بہت بھوک لگی ہے ریسام کا ہاتھ پکڑتے ہوئے۔
 ریسام

  پاپا۔ ok

 بائے بائے ریماس میں پھر آؤں گئی مل کر کھیلیں گے۔ کہتے ہی واپس پلٹ گی احتشام بھی ریسام کے ساتھ سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئے۔۔۔۔ 

ریماس ان کو ایسے جاتا دیکھتی رہی اس کے دماغ میں صرف ایک لفظ کھانا چل رہا تھا۔ کھانے کا نام سن کے اس کے منہ میں پہلے ہی پانی آ گیا تھا کیونکہ اس نے کل رات سے کھانا نہیں کھایا تھا۔ رونے والے انداز میں اس نے کہا

مجھے بھی بھوک لگی ہے میں نے بھی کھانا کھانا ہے۔۔۔۔

احتشام اس کی آواز سن کر روکا۔ اور واپس موڑ کر اسے دیکھا اور وہ معصوم سی بچی اسی حالت میں کھڑی تھی۔ وہ چل کر اس کے پاس آیا اس سے پہلے کہ احتشام کچھ کہتا ریماس نے اپنے ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیے۔ احتشام نے خوشی سے اسے اپنے بازوؤں میں اٹھا لیا۔ اور پھر ریسام کا ہاتھ پکڑ کر نیچے لے آئے دونوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

آمینہ میز پر سالن کا ڈوگہ رکھ رہی تھی جب احتشام اور ریسام کے ساتھ اس بچی کو آتے دیکھا احتشام نے اسے اٹھایا ہوا تھا۔۔۔ وہ ان کے قریب آئی یہ کیوٹ سی بچی کون ہے اور ساتھ ہی ریماس کو اٹھانے کے لیے ہاتھ آگے کیے ریماس بنا کسی ہچکچاہٹ کے آمینہ کے پاس آ گئی۔ 

ماما یہ میری فرینڈ ہے۔۔۔ اور یہ آج ہمارے ساتھ کھانا کھائے گی۔۔۔ 

اوہ اچھا۔ بہت پیاری ہے آپ کی فرینڈ۔ ساتھ ہی ریماس کے بال کان کے پیچھے کیے۔ 

آپکی فرینڈ کا نام کیا ہے اس دفعہ سوال ریماس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔ 

میں ریماس ہوں۔۔۔۔۔ 

"ریماس"

 آپ کا نام بھی آپکی طرح بہت پیارا ہے اس کے گال پر بوسہ دیا۔چلیں کھانا کھاتے ہیں۔۔۔۔۔ ریسام بیٹا ریماس کو لے
 کے جائیں۔ ہاتھ منہ دھو کر آ جائیں میں اور بابا ویٹ کرتے ہیں آپ دونوں کا۔۔۔۔۔۔۔۔
 
  ماما okay۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
 
کھانا کھاتے ہوئے آمینہ اور احتشام ریماس کو دیکھتے ہی رہے لگ بھگ پانچ سال کی بچی۔۔۔۔۔۔ لیکن کھانا بہت ہی تمیز سے کھایا کھانے سے پہلے کی دعا بعد کی دعا۔۔۔۔ کھانے کے بعد اپنی پلیٹ خود کچن میں چھوڑ کر آنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سچ میں ایک چھوٹی معصوم سی گڑیا تھی وہ رات سے بھوکی تھی لیکن کھانے کی عادات واطوار جو اس نے اپنی دادی سے سیکھے تھے کبھی نہیں بھولتی تھی۔ ۔۔۔۔۔ وہ کچھ میں پلیٹ رکھ کر واپس آ کر میز پر اپنی کرسی کھینچ کے بیٹھ گئی انکا کھانا ختم کرنے کا انتظار کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شاید بھول گی تھی کہ یہ اس کا گھر نہیں  ہے وہ بس ان کو دیکھتی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم کراچی جا رہے ہو بس اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے سب تیاری کر چکا ہوں میں۔ اور اس دفعہ میں امید کرتا ہوں کہ تم میرا فیصلہ مانو گے۔ جو کچھ تم کر چکے ہو جانے سے پہلے مزید کوئی مسئلہ کھڑا مت کرنا حیدر۔ اپنے بیٹے کو دیکھتے ہوئے ڈرائنگ روم سے باہر چلے گئے۔ حیدر جو ابھی تک اس فیصلے کو سمجھ نہیں پایا تھا۔ صبح تک تو ایسا کچھ نہیں تھا اور ابھی ہی ایک گھنٹے بعد اس کی فلائٹ تھی۔ حیدر چلو بیٹا بابا تمہارا باہر انتظار کر رہے ہیں۔ اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا وہ جو اسے اپنے سے دور نہیں جانے دیتی تھی آج اسے اپنے سے اتنا دور کراچی بھیج رہی تھی۔ وہ آرام سے اٹھا۔۔۔ اپنی ماں کے گلے ملا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ اپنا خیال رکھیے گا ماما میری فکر مت کریے گا۔ ۔۔۔ اپنی ماں کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیے وہ بولا اور باہر کی طرف نکلا۔ ۔۔۔۔۔

 باہر کی طرف نکلتے ہوئے اس کا سامنا علینہ سے ہوا جو شاید اسی کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔
جا رہے ہو تم۔۔۔ توں توں توں۔ بہت دکھ ہوا سن کے ساتھ ہی مسکرائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیدر نے ایک نظر اسے دیکھا اور پورچ میں کھڑی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔۔۔ ۔۔۔۔ 
تم جاو میں خود چلاؤں گا۔۔ ڈرائیور سے کہتے ہوئے اس سے گاڑی کی چابی لے لی۔ بیٹھو حیدر۔۔۔۔۔۔




Post a Comment

0 Comments