وہ بے وفا ہے تو کیا مت کہو برا اُس کو
کہ جو ہوا سو ہوا خوش رکھے خدا اُس کو
نظر نہ ائے تو اُس کی تلاش میں رہنا
کہیں ملے تو پلٹ کر نہ دیکھنا اُس کو
وہ سادہ خُو تھا زمانے کے خَم سمجھتا کیا
ہوا کے ساتھ چلا لے اڑی ہوا اُس کو
وہ اپنے بارے میں کتنا ہے خوش گما دیکھو
جب اس کو میں بھی نہ دیکھوں تو دیکھنا اُس کو
ابھی سے جانا بھی کیا اُس کی کم خیالی پر
ابھی تو اور بہت ہوگا سوچنا اُس کو
اسے یہ دُھن کے مجھے کم سے کم اداس رکھے
میری دعا کہ خدا دے یہ حوصلہ اُس کو
غزل میں تذکرہ اُس کا نہ کر نصیر کہ اب
بُھلا چکا وہ تجھے تو بھی بھول جا اُس کو
0 Comments