یہ ملاقات پھر نہیں ہوگی
ایسے بادل تو پھر بھی ائیں گے
ایسی برسات پھر نہیں ہوگی
رات ان کو بھی یوں ہوا محسوس
جیسے یہ رات پھر نہیں ہوگی
اک نظر مڑ کے دیکھنے والے
کیا یہ خیرات پھر نہیں ہوگی
شبِ غم کی سحر نہیں ہوتی
وہ بھی تو میرے گھر نہیں ہوتی
زندگی تو ہی مختصر ہو جا
شب غم مختصر نہیں ہوتی
میں نے معصوم بہاروں میں تمہیں دیکھا ہے
میں نے پرنور ستاروں میں تمہیں دیکھا ہے
میرے محبوب تیری پردہ نشینی کی قسم
میں نے عشقوں کی قطاروں میں تمہیں دیکھا ہے
ہم بتوں سے جو پیار کرتے ہیں
نقل پروردگار کرتے ہیں
اتنی قسمیں نہ کھاؤ گھبرا کر
جاؤ ہم اعتبار کرتے ہیں
ابھی آ جاؤ کچھ نہیں بگڑا
اب بھی ہم انتظار کرتے ہیں
سازِ ہستی بجا رہا ہوں میں
جشن مستی منا رہا ہوں میں
کیا ادا ہے نثار ہونے کی
ان سے پہلو بچا رہا ہوں میں
کتنی پختہ میری نادانی
تجھ کو تجھ سے چھپا رہا ہوں میں
دل ڈبوتا ہوں چشم ساقی میں
میں کو میں میں ملا رہا ہوں میں
نہ ہم سمجھے نہ تم ائے کہیں سے
پسینہ پوچھیے اپنی جبیں سے
0 Comments