منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر
ہر شیشہ ٹوٹ جاتا ہے پتھر کی چوٹ سے
پتھر ہی ٹوٹ جائے وہ شیشہ تلاش کر
سجدوں سے تیرے کیا ہوا صدیاں گزر گئی
دنیا تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر
ایمان تیرا لوٹ گیا رہزن کے ہاتھوں سے
ایمان تیرا بچا لے وہ رہبر تلاش کر
ہر شخص جل رہا ہے عداوت کی آگ میں
اس آگ کو بجھا دے وہ پانی تلاش کر
کرے سوار اونٹ پہ اپنے غلام کو
پیدل خود چلے وہ آقا تلاش کر
شروع کرنے سے پہلے آپ سب سے خیریت دریافت کرتا ہوں سب آپ بلکل ٹھیک ہوں گے۔ دوستوں اچھا آپ یہ سوچے کہ میں نے یہ سب کیوں بھیجا ہے چلو اس بات کی میں خود وضاحت کر دیتا ہوں
دراصل اوپر جو اردو میں ایک پیغام دیا گیا ہے اصل میں ہماری رہنمائی کی گئی ہے۔ ہم زندگی میں کامیابی چاہتے ہیں۔ بلکل یہ سچ ہے۔ میں آپ سے سوال کرتا ہوں سوچو آپ ایک ڈاکٹر یا پھر انجینئر بننا چاہتے ہو اور آپ بن جاتے ہے کیا آپ اس کو کامیابی کہو گے؟ نہیں اس وقت تک نہیں جب تک آپ لوگوں کے لیے کچھ نہیں کرتے اس دنیا کے لئے کچھ نہیں کرتے کامیاب وہ ہوتے ہیں جو اصل میں زندہ رہتے ہیں۔ نہیں لوگ تو مر جاتے ہاں اصل میں جن لوگوں کی ہم مثالیں دیتے جب وہ ہمارے ساتھ یا پھر اس دنیا میں نہیں ہوتے وہ ہیں کامیاب لوگ۔
اگر آپ کو ایک کام میں کامیابی ملتی ہے تو پھر آگے اور بھی دنیا ہے۔ اگر دریا کو ڈھونڈ لیا ہے تو پھر سمندر کو بھی تلاش کر۔ میں بات یہ کرنا چاہتا کہ روکنا نہیں اگر روک جاتے ہو تو پھر یہ دنیا اپنے ساتھ نہ چلنے والوں کو کچل دیتی ہے۔ خود کو مضبوط بناؤ۔ اپنے آپ کو طاقتور سمجھو
آج پہاڑوں کے کلیجے کو چیر کے معدنیات نکال رہے اس وجہ سے کیوں کہ انہوں نے خود کو مضبوط سمجھا
آج ہم عبادت کرتے ہیں اور ہمارے آباؤاجداد عبادت کرتے آ رہے ہیں پھر ان کی دنیا کیوں نہیں بدلتی اس لیے کہ ہم اپنے آپ کو کہی اور جگہ کھو آتے ہیں۔ ہم عبادت تو کر رہے ہو ہوتے ہیں پر خود ہوتے نہیں دنیا کی رنگینیوں میں گم ہوتے ہیں۔ ہم کو رہبر ہی نہیں ملا جو ملا ہے اس نے ہمیں لوٹ لیا ہے اس نے کبھی کامیابی کا راستہ بتایا ہی نہیں ہے
اچھا کامیابی کی بات ہو رہی تھی تو ہماری ناکامی کی وجہ ہوتی ہے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتے کیوں؟
یہ بہت اہم سوال ہے ہم کامیاب اس وجہ سے بھی نہیں ہوتے کہ ہم لوگوں کی کامیابی چھین لینا چاہتے ہیں۔ کسی دوسرے کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتے۔ ہمارے اندر ایک آگ ہے وہ ہے عداوت کی آگ۔ پتا نہیں کیوں ہے؟ پر اندر سے جلاتی دوسروں کی کامیابی پر
آخر میں علامہ محمد اقبال جن کو شاعر مشرق بھی کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں ہم تقسیم ہو گئے ہیں اس لیے کمزور پڑ گئے ہیں اور کامیاب نہیں ہوتے۔ ہم میں سے کوئی بادشاہ ہے تو کوئی غلام۔ کچھ خود کو بادشاہ کہتے ہیں تو کچھ خود کو اس دنیا کا مالک۔ ہمیں ایسا کوئی لیڈر نہیں ملا جس نے اپنے اونٹ پہ کسی غلام کو سوار کیا ہو۔ وہ آخر کون تھا جس نے اپنے اونٹ پہ غلام کو سوار کیا اور پھر خود پیدل چلتے رہے وہ تھے حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ تعالٰی عنہ)
Before starting, I wish you all the best. You will all be fine. Friends, well you think why I have sent all this, let me explain it myself
In fact, the message given above in Urdu has actually guided us. We want success in life. It is absolutely true. I ask you if you think you want to be a doctor or an engineer and you become one, would you call it success? No, not until you do something for people, do nothing for this world, the successful are those who actually survive. No, people die, but actually the people we give examples of when they are not with us or in this world are successful people. If you succeed in one task, then there is another world ahead. If you have found the river, then find the sea too. I want to say that don't stop, if you stop then this world crushes those who don't follow it. Make yourself strong. Think of yourself as powerful. Today, we are extracting minerals from the mountains because we are strong.
Today we worship and our forefathers have been worshiping, then why their world does not change because we lose ourselves somewhere else. We are worshiping, but we are not ourselves, we are lost in the colors of the world.
Well, if we were talking about success, then there is a reason for our failure, why do we not succeed in our goal? fire of hatred. Don't know why? But burning from within on the success of others
Finally, Allama Muhammad Iqbal, who is also known as the poet of the East. They say that we are divided and therefore we are weak and do not succeed. Some of us are kings and some are slaves. Some call themselves kings, others call themselves masters of this world. We have not found any leader who had a slave on his camel. Who was he who made the slave ride on his camel and then walked on foot, he was Hazrat Abu Bakr Siddique.
This is the summery about the given stanzas in Urdu language.
1 Comments
Nice message dear
ReplyDelete