"" بہشت اور غریب
Responsive Advertisement

بہشت اور غریب







شیخ سعدی لکھتے ہیں کہ  دو آدمی اپنے اپنے والد کی قبر پر بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک درویش تھا، دوسرا امیر تھا۔ اک دم سے امیر زادے نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا دیکھو میرے والد کی قبر کتنی خوبصورت ہے۔ زمرد پتھر رکھا ہوا ہے، اور خوبصورت خطاطی سے تختی لکھی ہوئی ہے، اس کے مقابلے میں تمہارے باپ کی قبر کتنا خستہ حالت میں ہے۔ دو مٹھی بھر مٹی اور چند ایک پتھر وہ بھی بِنا ترتیب کے۔ درویش کا بیٹا خاموشی سے سنتا رہا۔ جب اس نے سب کچھ بول لیا، پھر درویش کے بیٹے نے خاموشی کو الوداع کہتے ہوئے کہا،

دیکھو بھائی میں مانتا ہوں کہ آپ کے والد کی قبر خوبصورت ہے۔ اس پر بھاری سبز رنگ کا پتھر رکھا ہوا ہے، اور خوبصورت خطاطی سے آپ کے والد کا نام تختی پر لکھا گیا ہے۔ دیکھو بھائی ہم حقیقت سے بھی تو منہ نہیں موڑ سکتے۔ حقیقت کیا؟ جب قیامت کے دن سب کو قبر سے اٹھایا جائے گا، اس دن آپ کے والد اس بھاری پتھرکو جب تک ہٹا کر نکلیں گے تو اس وقت تک تو میرے والد تو بہشت میں پہنچ چکے ہوں گے، کیونکہ میرے والد صاحب کو یہ دو مٹھی بھر مٹی ہٹانے میں تکلیف بھی نہیں ہو گی۔ 

اس کہانی سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟ 
اس کہانی کی جو اصل کہانی ہے وہ یہ ہےکہ مالک کائنات جس کو جتنا دولت دیتا ہے۔ اس سے حساب بھی تو ہو گا، کہانی کے اندر پتھر کو دولت کی  سے تشبیہ دیا گیا ہے۔ اگر دولت آپ کے پاس زیادہ ہے تو اس کا بوجھ بھی زیادہ ہو گا۔ اگر حساب میں گڑ بڑ ہو گی تو پھر تو روزِ محشر میں کیسے حساب دو گے۔ اگر غریب کو دیکھے تو اس سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تو نے حج کیوں نہیں کیا؟میرے بندوں کی مدد کیوں نہیں کی؟ یتیموں کو کھانا کیوں نہیں کھلایا؟ 
لیکن یہ سب سوالات امیر سے پوچھے جائیں گے۔

Post a Comment

0 Comments