جس کرب کی شدت سے میری روح ہے بیکل
پہلے بھی میری زیست کا آزار ہُوئی تھی
جس سوچ میں میں آج لُہو تھوک رہا ہوں
پہلے بھی میرے حق میں یہ تلوار ہُوئی تھی
وہ غم، غمِ دنیا جیسے کہتا ہے زمانہ
وہ غم، مجھے جس غم سے سروکار نہیں تھا
وہ درد کہ ہر دور کے انسان نے جھیلا
وہ درد میرے عشق کا معیار نہیں تھا
وہ زخم کہ ہر سینے کا ناسور بنا تھا
وہ زخم مجھے باعثِ آزار نہیں تھا
دنیا نے تڑپ کر مِرے شانوں کو جھنجھوڑا
لیکن مرا احساس غمِ ذات میں گُم تھا
آتی رہی کانوں میں المناک پکاریں
لیکن مرا دل اپنے ہی حالات میں گُم تھا
میں وقت سے بیگانہ زمانے سے بہت دور
جام و مے و مینا و خرابات میں گُم تھا
دربار کی تفریح کا ساماں تھا مرا فن
ہاتھوں میں مرے ظرفِ گدا لب پہ غزل تھی
شاہوں کی ہوا خواہی مرا ذوقِ سخن تھا
ایوانوں کی توصیف و ثنا اوجِ عمل تھی
0 Comments